رانی کھیت (New-castle Disease)

مرغیوں میں رانی کھیت کا مرض سب سے پہلی دفعہ رانی کھیت (انڈیا) کے مقام پر دیکھنے میں آیا۔ اس وجہ سے اس بیماری کورانی کھیت کہتے ہیں۔یہ مرغیوں کا ایک شدید مہلک متعدی مرض ہے جس کا سبب ایک وائرس ہے جو عام خوردبینوں سے نہیں دیکھے جا سکتے بلکہ انہیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقتور قسم کی خور دبین درکار ہوتی ہے ۔ یہ وائرس پرندوں کے نظام تنفس اور دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مرغیوں کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اور مرغیوں کا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مرغیوں کے تمام افعال اور جسمانی اعضا میں ہم آہنگی اور ر بط قائم نہیں رہتا۔اس مرض کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں مرغیاں اور چوزے ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس مرض کی وجہ سے شرح اموات 90-10فیصد تک ہوسکتی ہے۔ بیماری ظاہر ہونے کے بعد اس کا علاج ممکن نہیں جو پرندے اس بیماری سے بچ بھی جائیں ان کی پیداواری صلاحیت بے حد متاثر ہوتی ہے اور وہ اقتصادی لحاظ سے نفع بخش نہیں رہتے۔اس مرض کا وائرس بیمار پرندوں کی تمام رطوبتوں اور فضلے کے ساتھ خارج ہوتا ہے اور وہ دوسرے پرندوں کے لیے چھوت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ وائرس بیمار پرندے سے تندرست پرندے میں سانس اور منہ کے راستے جسم میں داخل ہوتا ہے اور مرض کی علامات پیدا کرتا ہے

 

بیماری پھیلنے کا طریقہ
اس بیماری کے پھیلنے کے طریقوں میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
  • ایک فارم سے دوسرے فارم پر جا کر انڈے/ پرندے خریدنے والے تاجر اس بیماری کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ کسی ایک فارم پر جہاں بیماری موجود ہو۔ اس قسم کے آدمیوں کے جانے سے ان کے کپڑوں وغیرہ کو چھوت لگ جاتی ہے اور یہ لوگ کسی دوسرے فارم پر جاتے ہیں جہاں بیماری موجود نہ ہوں تو وہاں پرندوں کو بیماری لگ جاتی ہے۔
  • شہروں کے قریب واقع پولٹری فارم پر عام طور پر لوگ مرغیاں وغیرہ دیکھنے کے لیے آجاتے ہیں یہ لوگ بھی بیماری کے جراثیم ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
  • مرغیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والے ٹوکرے، کریٹ جن میں بیمار مرغیوں کو رکھ کر لے جایا گیا ہو اس بیماری کو پھیلانے میں مدد دیتے ہیں۔
  • پرندے از قسم کوے، چڑیاں جو ایک فارم سے دوسرے فارم پر پہنچ جاتے ہیں یہ بھی مخصوص بیماری پھیلانے کا موجب بنتے ہیں بالخصوص ان جگہوں پر جہاں پولٹری فارم ایک دوسرے کے قریب واقع ہوں یہ پرندے بیماری پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
  • فارم پر بیمار اور تندرست پرندوں کو علیحدہ نہ کرنے سے بھی بیماری تندرست پرندوں تک پھیل جاتی ہے۔
  • حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی نہ کرنے سے بھی بیماری کے جراثیم فارم پر موجود رہتے ہیں اور جب کبھی موسم کی شدت یا کسی دوسری وجہ سے مرغیوں کی صحت گر جائے یا قوت مدافعت کم پڑ جائے تو یہ جراثیم فورا اپنا اثر دکھاتے ہیں ۔
  • لیبارٹری میں مرد ہ بیمار پرندوں کا معائنہ کرنے والے آلات ، اوزار وغیرہ کے ذریعے بھی یہ بیماری پھیلتی ہے ۔ اگر وہی آلات ، سامان وغیرہ دیگر تندرست پرندوں پر بھی استعمال کیا جائے تو وہ بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔

علامات
اس قسم کا وائرس تین نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔

  • نظام تنفس
  • اعصابی نظام
  • نظام ہاضمہ

نظام تنفس میں کھانسی کا آنا، ہانپنا، سانس لیتے وقت خرخراہٹ کی آواز کا پیدا ہونا، ناک اور منہ سے لیسدار رطوبت کا خارج ہونا ، آواز کا بیٹھ جانا اوربعض چوزوں میں آواز کا بالکل بند ہو جانا شامل ہوتا ہے۔اعصابی نظام میں چوزوں پر رعشہ کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ چوزوں میں غیر فطری حرکات کا پیدا ہونا مثلاً چکر کاٹنا، پیچھے کی طرف ہٹنا ، کئی بار سر کے بل الٹ جانا، چال میں لڑکھڑاہٹ اور پٹھوں میں غیر ارادی تشنج کا پیدا ہونا ۔ گردن کا پیچھے ایک طرف کو مڑ جانا، ایک یا دونوں ٹانگوں پر فالج کا گرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ تیسری علامات میں ہاضمہ کا نظام متاثر ہوتا ہے۔مرغیوں کی بھوک ختم ہوجاتی ہے، پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پرندے خوراک کھا نا کم کردیتے ہیں، پرندوں کی بیٹ پتلی اور بد بو دار اور سبز سفیدرنگ کی ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات سبز رنگ کے اسہال آنے لگتے ہیں ۔ انڈے دینے والی مرغیوں میں مرغیاں انڈے دینا بند کر دیتی ہیں۔ کلغی اور کنٹھ نیگلوں ہو جاتے ہیں۔ ایسے پرندے جب انڈے دیتے ہیں تو انڈوں کے خول یا تو بہت ہی ملائم ہوتے ہیں یا کھردرے اور ان کی شکل غیر فطری ہوتی ہے۔لاش کی جراحت کرنے پر غدود اور معدہ کے اندر کی سطح پر واقع قدرتی خشخاش کے دانوں کی مانند ابھار پر خون کے سرخ دھبے موجود ہوتے ہیں۔ انتڑیاں متورم ہوتی ہیں اور ان کی اندرونی جھلی پر خون کے دھبے نظر آتے ہیں ۔ نرخرے میں سوزش کی علامات نظر آتی ہیں اور اس میں گاڑھا لیسدار مواد (Mucoid Exudate) جمع ہو جاتا ہے۔

مرض کی شناخت
سرسری طبی معائنے اور پوسٹ مارٹم سے حاصل کردہ معلومات مرض کی تشخیص میں مدد دیتی ہیں ۔ مرغیوں میں تنفّسی علامات اسہال کی شکایات اور بعد میں اعصابی علامات کا ظاہر ہونا مرض کی تشخیص میں مددگار ثابت ہوتی ہے چونکہ اس مرض میں نظام تنفس اور نظام انہضام متاثر ہوتے ہیں اس لیے عام طور پر ان کا معائنہ کرنے پر مخصوص علامات پائی جاتی ہیں۔ بیماری کی حالت میں سانس کی تکلیف کی وجہ سے پھیپھڑوں کی رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔پرندے کے معدے (Proventriculus) کی اندرونی سطح پر خون کے چھوٹے چھوٹے دھبے اس بیماری کی خاص علامات ہیں اس کے علاوہ انتڑیوں میں ورم ہو جا تا ہے۔

روک تھام
و با پیدا ہونے کی صورت میں صحت مند پرندوں کو فوراً بیمار پرندوں سے علیحدہ کر لینا چا ہے۔ شد ید بیمار پرندوں کو ذبح کر کے ان کے پروں ، انتڑیوں اورفضلات کو گہرے گڑھے میں دبا دینا چاہیے۔ گڑھے پر چونے کی اچھی تہ بکھیر دی جائے۔ بہتر یہ ہے کہ ان سب اشیا کو جلا دیا جائے۔ جس جگہ مرغیاں رہ چکی ہوں اس جگہ کھانے پینے کے برتنوں ، انڈے دینے کے ڈبوں وغیرہ کو جراثیم کش ادویہ کے ذریعے صاف کردیا جائے۔رانی کھیت کے وائرس کو سورج کی شعاعی چار گھنٹے میں ختم کر دیتی ہیں اس کے علاوہ فارملین 22 فیصد پوٹاشیم پرمیگنیٹ (50000=1) اور کار با لک کے محلول بھی اس وائرس کوتلف کر دیتے ہیں ۔ مرغی خانے کے دروازے کے سامنے چونا بکھیر دیا جائے تو جو شخص بھی اندر داخل ہواس کے پاؤں کے ذریعے چھوت نہ پھیل سکے۔رانی کھیت مرض کا کوئی علاج ممکن نہیں ہے اس لیے بہترین علاج یہی ہے کہ بیماری سے متعلق حفاظتی ٹیکے مناسب وقت پر لگائے جائیں ۔ پولٹری پروڈکشن کے دفاتر سے کسی بھی مسئلہ کی صورت میں رجوع کیا جائے۔

رانی کھیت کے ٹیکے اس طرح لگائیں

  • 10-8دن کے چوزوں کی آنکھوں میں ایک ٹیکے والے ایمپیول (100 Doses) میں 5 سی سی پانی ( آب مقطر) ملا کر ڈراپر سے ایک قطرہ ایک پرندے کی ایک آنکھ میں ڈالا جائے ۔
  • ایک ماہ کے چوزوں کے لیے ایک ایمپیول(100 Doses) میں 50 سی سی ٹھنڈا آب مقطر ملا کر ہر چوزے کو نصف سی سی بذر یہ سرنج بازو میں زیر جلد یا سینے کے گوشت میں ٹیکہ لگائیں۔
  • چار ماہ کی عمر میں ایک ایمپیول (100 Doses) میں 100 سی سی ٹھنڈا آب مقطر لا کر ہر پرندے کو بازو میں ایک سی سی ٹیکہ لگائیں۔